| ستم ہے دکھ بھی ہمارے سمجھ نہیں پائے |
| عبث ہے شکوہ، بے چارے سمجھ نہیں پائے |
| سکون قلب خدا کو پکارنے میں ہے |
| اسے یہ مال کے مارے سمجھ نہیں پائے |
| ملال ہے بے رخی کے برتنے پر ان کے |
| نظر سے نکلے اشارے سمجھ نہیں پائے |
| نہ جانے پا کے اسے کھو دیا کہاں کیسے |
| نصیب کے یہ ستارے سمجھ نہیں پائے |
| ہے انتظار میں ناصؔر بچھائے پلکوں کو |
| سبب جدائی کا پیارے سمجھ نہیں پائے |
معلومات