زنجیرِ وقت و بُعد سے آزاد ہو گیا |
میں روشنی کے شہر میں آباد ہو گیا |
عمریں ہوئیں تمام، تعدد نہ مل سکا |
میں بٹ کے موج شور میں برباد ہو گیا |
تجھ میں زمین زاد کشش ہی عجیب تھی |
اس وصلِ اتفاق سے دل شاد ہو گیا |
یہ ارتعاش اب تو مرے درد میں بھی ہے |
جیسے یہ ارتعاش ہی بنیاد ہو گیا |
وہ دور ہو کے پاس ہے یا پاس ہو کے دور |
ایسے یہ دل حَوالۂ صیاد ہو گیا |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات