محبّت امن صلح و آشتی کی اک کہانی کا |
لکھا جائے گا پہلا باب ان سے شادمانی کا |
بھلا ہے کون جس نے خواب یہ دیکھا نہیں ہو گا |
سکونِ قلب ہو جس میں میسّر حکمرانی کا |
تم اپنا پیار سب کو بانٹ کر دیکھو تو پاؤ گے |
کوئی تو منتظر ہو گا محبّت کی نشانی کا |
ہوئی مرشد کے منہ سے نہر جاری علم و عرفاں کی |
سخن اس کا لگے جیسے ہو دریا اک روانی کا |
کوئی بہرہ یا اندھا ہے تو اُس کا دوش اُس کے سر |
کسی کے پاس بھی حل تو نہیں ہے بد گمانی کا |
حفاظت کا تو سارا بوجھ اس نے لے لیا سر پر |
مکلّف میں تو اتنا ہوں کہ سوچوں پاسبانی کا |
خدا کے سامنے راتوں کو رونا اور دعا کرنا |
نہیں پھر لوٹ کر آتا زمانہ یہ جوانی کا |
تمہیں طارق زمانے سے کوئی شکوہ نہیں ہو گا |
دلوں کو جیتنے کا ہے خیال اس رُت سُہانی کا |
معلومات