گرچہ الزام تو اس پر بھی سراسر آئے
چاند پر تھوکا ہوا اپنے ہی منہ پر آئے
کاش وہ کھول کے آنکھیں انہیں دیکھے اک روز
اس کو پیغام جو الفت کے برابر آئے
دیکھنا یہ ہے کہ اخلاق ہیں کس کے اعلٰی
لے کے سونا تو بہت ہاتھ میں زرگر آئے
دور وہ کر نہ سکے داغ لگا دامن پر
ورنہ ہاتھوں میں لئے لوگ تو نشتر آئے
بھول ہی جاتا میں رستہ ترے گھر آنے کا
بن کے وہ میرے لئے رحم کا پیکر آئے
کیسے ممکن ہے بھلا دوں میں اسے پل بھر میں
وہ مری یاد میں آئے تو نہ پل بھر آئے
بول سکتا ہے خدا بندے سے جو جی چاہے
جو بھی اترے ترے پیغام وہ دل پر آئے
کاش طارق بھی کہے تُجھ سے جو کہنا چاہے
ہاتھ اس کے بھی تو کچھ کہنے کو دفتر آئے

0
38