. . . . . . . غزل۔۔۔۔۔ |
یقیں کی حد سے پرے ہیں شعور کی باتیں |
عمل کی، حشر کی، جنت کی، حور کی باتیں |
وہ دھیان ہٹنے ہی نہیں دیتا کسی جانب |
بڑا ذہین ہے کرتا ہے دور کی باتیں |
کسے گمان تھا بخشیگی نور ظلمت کو |
بڑی لطیف تھیں پرنور طور کی باتیں |
ہر آدمی لئے پھرتا ہے مکر کا جذبہ |
کہ بھائی بھائی کا کرنا فتور کی باتیں |
پھر آج عشق کا پندار رکھ لیا کشفی |
پھر آج ہجر میں اس سے ضرور کی باتیں |
ڈاکٹر رضوان کشفی (اوتمحل، مہاراشٹر ، انڈیا) |
معلومات