چھل کپٹ، دھوکا اور لارا ہے
روز و شب کام یہ تمہارا ہے
بے مروت ہو ،بدلحاط ہو تم
خوب ہیں طور، خوب دھارا ہے
وہ کبھی تو وفا شِعار بنے
اور کیا مدعا ہمارا ہے
یہ جو لمحات ہیں تصور میں
ہجر میں وصل کا نظارہ ہے
بے سکونی ہے دکھ ہے اور فراق
تم سے البتہ اب کنارا ہے
تمہیں کھو کر یہ راز مجھ پہ کھلا
تمہیں پا لینے میں خسارا ہے
ہے اداسی یہاں قیام پزیر
طاق سے آج خط اتارا ہے
زندگی کب گزاری ہے میں نے
زندگی نے مجھے گزارا ہے
دوش کیا دیں وجودِ ذات کو ہم
مر کے بھی تو تمہیں پکارا ہے
ہر طرح سے میں ہو چکا برباد
ہاتھ اس میں فقط تمہارا ہے
چھوڑنا پڑ رہا ہے اپنا گھر
اک زمانہ جہاں گزارا ہے
جا رہا ہوں میں اور ہی دنیا میں
تیرگی کا جہاں اجارہ ہے

0
143