یہ دل اب خود سے بھی کوئی سہارا نہیں دیتا
کوئی تو ہوتا ہے، جو سہارا نہیں دیتا
جسے ہر شب روتا تھا، وہ دن اچھا نہیں دیتا
وہی چہرہ مجھے اب بھی نظارا نہیں دیتا
مرے جذبے، مرے خوابوں کے سب رستے جلے ہیں
لیکن وہ آگ دے، پھر بھی شرارا نہیں دیتا
اُس ہی کے ذکر میں کٹتی رہی ہر ساعتِ غم
کبھی بھی پھر وہ دل کو سہارا نہیں دیتا
مرے اندر کی ویرانی کو وہ پہچانتا ہے
لیکن پھر بھی مجھے کوئی اشارہ نہیں دیتا
میں حیدرؔ مانگتا ہوں اُس سے کچھ پل کا سکوں
وہی جو پہلے دیتا تھا، دوبارہ نہیں دیتا

0
5