کل گیا کوئی ، کوئی آج چلے جانا ہے
زندگی تیرا فقط اتنا سا افسانہ ہے
کوئی احسان تمہارا نہیں لوٹا پایا
اس کے بدلے میں نہیں علم کہ کیا پانا ہے
سب گلے شکوے یہیں پر ہیں دھرے رہ جانے
اور پھر لوٹ کے کب کس نے یہاں آنا ہے
لوگ بدلیں گے ، زمانے کو بدلنا ہو گا
منقلب دور زمانے نے یہاں لانا ہے
حادثے تم پہ جو گزرے ہیں انہیں بھول گئے
تم تو کہتے ہو زمانے کا بھی غم کھانا ہے
بات کچھ روز کی ہے اور بھی ہنس لو ہم پر
ہم سے کیا کیا نہ ہوا تم نے ہی چلّانا ہے
جانتے ہیں کہ ہمیں ہوں گے نشانہ تیرا
زندگی اور بھی کیا کوئی ستم ڈھانا ہے
کہکشاؤں سے پرے دیکھی تھی منزل اپنی
جب ملے خاک سے پھر خاک کو پہچانا ہے
طارق آغازِ محبّت میں بتایا تھا گیا
تم نے جاں دینے کو آسان بہت جانا ہے

0
13