کوئی بات اب تو معتبر نہ لگے ہے
اچھی بری خبر خبر نہ لگے ہے
سنو شوقِ سحر میں عاشقوں کو تو
جی ہاں شب میں اچھا قمر نہ لگے ہے
خزاں کی یہ تباہی دیکھ کے تو جی
اچھا اب زیست کا سفر نہ لگے ہے
جی میسر تو سب ہی کچھ ہے تو پھر کیوں
مجھے میرا مکان گھر نہ لگے ہے
سنو شیخ و ملا کی منفی روش میں
رتی بھر بھی کوئی کسر نہ لگے ہے
نہ کسی سے شکوہ کرنا کبھی حسن
گلا سے امن کا شجر نہ لگے ہے

0
56