دیکھ کر تصویر میری پھیر لی اس نے نظر
خیریت گزری وہاں پر مَیں نہ تھا بارِ دِگر
غیر کے کہنے پہ مجھ سے بے سبب ناراض ہو
جبکہ مَیں ایسا نہیں جس نے چلائی تھی خبر
چل رہی ہے نسلِ نَو اُس خاص طرزِ فکر پر
نا کوئی منزل ہے جس کی نہ کوئی رستہ نہ گھر
وہ بھی دن تھے جب کسی کی آنکھ کا تارا تھا مَیں
جا چکے وہ دور کب کے گُم ہوئے شام و سحر
زندگی گو سب سے بڑھ کر ہے تغیّر آشنا
شُکر ہے اللہ کا مسرور ہوں شام و سحر
کتنا رعب و دبدبہ تھا ایک دن جس شخص کا
ہاتھ میں کشکول تھامے پھر رہا ہے در بدر
اس جہاں میں کب کسی کو دائمی منصب ملا
نہ کوئی دارا سکندر نہ فقیرِ رہ گزر
ٹھیک ہو جاتی ہے کاغذ پر لکھی غلطی امید
دل مگر کاغذ نہیں ہے ہو گیا زیر و زبر
بی۳

0
79