عجیب ہے کہ اسی کا ہے انتظار اُنہیں |
کہ جس کے آنے کا امکان ہی نہیں کوئی |
تلاشتا رہا گلیوں میں اور دریچوں میں |
وہ ایسے چہرے ہیں پہچان ہی نہیں کوئی |
وہ لے گئے ہیں اُٹھا کر وطن سے سچے لوگ |
یہ کہہ کے اِن کا تو تاوان ہی نہیں کوئی |
وہ پوچھتے ہیں مسائل کے بارے میں مجھ سے |
جب ان کا حل رہا آسان ہی نہیں کوئی |
گھروں میں گھُس گئے قانون کے ہیں رکھوالے |
جب ان کے ہاتھ میں چالان ہی نہیں کوئی |
بڑے گھروں کے کُھلے یوں تو اب ہیں دروازے |
بہت ہیں میزباں مہمان ہی نہیں کوئی |
بلند و بالا کھڑی ہیں عمارتیں ہر سُو |
گلہ ہے اب انہیں دالان ہی نہیں کوئی |
کسے بچائیں خرد مند کر کے تدبیریں |
کہ سارے شہر میں نادان ہی نہیں کوئی |
خبر ملی ہے یہ طارق کہ ہو گئے بد نام |
وہ جن کے بارے میں انجان ہی نہیں کوئی |
معلومات