نہ پوچھو دل پہ کیا طوفاں ہوا ہے
تجھے کھو کر یہی ارماں ہوا ہے
تری یادوں کی خوشبو سے معطر
یہ کمرہ پھر بھی تو ویراں ہوا ہے
جو لب تھے خامشی میں ڈوب بیٹھے
وہی شکوہ مرا عنواں ہوا ہے
نہ آیا خواب میں بھی اب وہ چہرہ
یہ لمحہ بھی تو بس ویراں ہوا ہے
بدن کی قید تو ٹوٹی ہے لیکن
جو دل تھا ، اب وہی زنداں ہوا ہے
صدائیں دے رہا ہوں رات دن میں
کہ جیسے کوئی تو حیراں ہوا ہے
کلام:- خورشید حسرت

0
11