دلوں میں دھوپ کے موسم اترتے رہتے ہیں |
ہم اپنی چھاؤں سے خود ہی بچھڑتے رہتے ہیں |
بدن پہ وقت کی گردیں جمیں تو کیا حیرت |
کہ ہم تو لمحہ بہ لمحہ بکھرتے رہتے ہیں |
نہ جانے کون سی زنجیر اٹکی قدموں میں |
کہ راستے بھی ہمارے ہی ڈرتے رہتے ہیں |
نظر میں خاک خیالوں میں ایک بے چینی |
ہم اپنے خواب ہی اکثر کترتے رہتے ہیں |
یہ عمر کاغذی کشتی کا کھیل ہے شاید |
ہم ایک لہروں کے پیچھے بھٹکتے رہتے ہیں |
جواب کوئی نہیں دیتا ان سوالوں کا |
یہ دن بھی ہم کو عجب طرح چبھتے رہتے ہیں |
نہ پوچھ حشر کی حالت مرے تخیّل کا |
مرے خیال کے پرزے بکھرتے رہتے ہیں |
معلومات