بہانے کرتے ہو تم کیوں مدام اے ساقی |
پِلا کبھی تو نگاہوں سے جام اے ساقی |
نہ مار ڈالے یہ اندازِ عاشقی تیرا |
نظر جھکا کے نہ ہو ہم کلام اے ساقی |
حَسین رُت ہے لُطف زندگی کا لینے دو |
شراب و حُسن کا کر اہتمام اے ساقی |
عتاب جچتا نہیں رُخ پہ تیرے بالکل بھی |
شگفتہ رُو رہا کر صبح و شام اے ساقی |
مئے شباب رہے گا سدا نہ شیشے میں |
کرے گا وقت اسے بھی تمام اے ساقی |
کہاں ہے سیکھی یہ عشوہ گری تُو نے بتلا |
جو ہر کوئی ہے تمھارا غلام اے ساقی |
قریبِ مرگ ہے دیوانہ یاں تمھارا اور |
تُو آ رہا ہے بڑا خوش خرام اے ساقی |
نہ اپنے رندوں کو اتنا ستایا کر ظالم |
اِنہی کے دم سے ہے تیرا یہ نام اے ساقی |
غرور کرتا ہے کیوں گلبدن جوانی پر |
اسے بھی ہونا ہے جب انہدام اے ساقی |
اُتار ساغرِ جوبن کو شیشے میں زیدؔی |
پلائے جا مجھے پھر بے قیام اے ساقی |
معلومات