یہ ابنِ قیس ہے تن تار تار اس کا ہے
تباہ کر دیا جس کو مزار اس کا ہے
وہ دیکھ کر مجھے پہچان ہی نہیں پاتا
مگر یہ زخم بھرا شاہکار اس کا ہے
ہر ایک موڑ پر اس نے دغا دیا مجھ کو
میں بھول جاتا ہوں یہ اعتبار اس کا ہے
مجھے یہ جسم اب آزاد بھی نہیں کرتا
کروں میں کیا کہ مجھے انتظار اس کا ہے
خدا نہیں وہ مگر میرا پیار ہے شاہد
ہر ایک سانس پر اب اختیار اس کا ہے

0
34