کب گرا کہسار سے ہوں
ٹھوکریں پتھر سے کھائی
کھول دی آنکھیں اُنہوں نے
موند آنکھوں، کیا بھروسہ
یاد رہتا، ہے خسارہ
جو بھروسے، سے کمایا
دیتی دُنیا، کم ہے موقع
دھوکا دیتی، ہے زیادہ
دوست ہے نا، ہوتا دُشمن
سیکھنے کا، ہے بہانہ
----٭٭٭----

105