آنکھ میں یار کی کہاں ہوں میں
اک چبھن آنکھ کی دھواں ہوں میں
خار راہوں میں ہیں بچھے جس کے
ایسی منزل کا کارواں ہوں میں
میرے چہرے پہ ہے تھکن جگ کی
ہر طرف گونجتی فغاں ہوں میں
پتیاں بکھری ہیں گلابوں کی
ٹوٹی شاخوں کا گلستاں ہوں میں
سرد سی راکھ ہوں میں دیپک کی
نظروں میں سب کی رائیگاں ہوں میں
دکھ ابھرتا ہے جس کے لفظوں سے
بزم کا ایسا نوحہ خواں ہوں میں
حد بھی شاہد نہیں میں الفت کی
دشت کی ریت کا نشاں ہوں میں

0
68