یہ جو لکنت تری زبان میں ہے |
جھول کچھ تو ترے بیان میں ہے |
کیسے سمجھوں اسے میں گھر جو اگر |
بے سکونی اگر مکان میں ہے |
وہ سکوں کب کسی بھی چھاؤں میں جو |
تیری پلکوں کے سائیبان میں ہے |
اک شکن پھر تری جبیں پہ ہے یا |
کوئی سلوٹ کسی چٹان میں ہے |
ہر طرف حشر اک اٹھا کے رکھے |
کیا قیامت تری اٹھان میں ہے |
میری شہ رگ سے ہے قریب کہیں |
اور رہتا وہ آسمان میں ہے |
شان جو سادگی میں پائی گئی |
وہ کہاں جھوٹی آن بان میں ہے |
اب بھی دل تجھ سے بد گمان نہیں |
کس قدر ظرف بد گمان میں ہے |
تیر وہ، جو ہیں ترکشوں میں ترے |
یا کھنچا آنکھ کی کمان میں ہے |
زندگی کب گئی ہے کان کہ جو |
میرے حصے میں آئی تھان میں ہے |
ہو گئے ہیں اسیر سحر حبیب |
سُر کوئی ایسا تیری تان میں ہے |
معلومات