حُسنِ بے داغ کا جلوہ جو نظر آ جائے
واعظِ خشک کے لفظوں میں اثر آ جائے
رونقِ بزم تو ہوتی ہے سدا شمع کے ساتھ
وہ نہ ہو پھر کہاں پروانہ نظر آ جائے
کُشتہٕ شوق ہوئے ہم بھی انہی آنکھوں کے
دیکھ کرجن کو کوئی بھی ہو ادھر آ جائے
خود بخود سجدے میں گر جانے کو دل چاہتا ہے
پھر کوئی اور مقابل پہ کدھر آ جا ئے
وہ ارادہ جو کرے دوست کو دشمن کردے
وہ جو چاہے تو عدو بن کے جگر آ جائے
دل کو سمجھایا بہت اس سے ہے ملنا مشکل
کاش اُس کو بھی سمجھ اِس کی مگر آ جائے
آفتاب اس کا ہی سب نور لئے پھرتا ہے
جو زمیں پر یہ لئے وقتِ سحر آ جائے
طارق اب چاند کو نکلے تو کئی دن گزرے
شاید ان کو بھی نظر اب وہ قمر آ جائے

0
78