تم جب بھی آنا لے آنا ساتھ اپنے محبت کے دستور،
تم جب بھی آنا لے جانا ساتھ اپنے، غموں کے یہ فتور۔
ہم تو قائل ہیں ان عشق کی سابقہ کتابوں پہ میاں،
تم جب بھی آنا لے جانا کیف پنہانی کے رنجور۔
مٹ چکا ہے فریب امیدوں کا مگر باقی کچھ امیدیں ہیں،
تم جب بھی آنا لے جانا اس برباد دل کے مذکور۔
لکھ دیتے ہیں اب کہ کبھی کچھ بحریں حقیقت جوش پہ بھی،
تم جب بھی آنا لے جانا شب ہجراں کے یہ مقدور۔
لب پر آتی ہیں فریادیں کہ معاذ، کیسا میخانہ ہے؟
تم اب جو آنا، مت چھوڑ جانا ہم کو یہاں یوں مہجور۔

0
49