جاں ترے کوچہ میں آ کر یہ فنا ہو جاتی |
مجھ کو گر قوّتِ پرواز عطا ہو جاتی |
بارہا سوچا یہ دیکھوں ترا روضہ میں بھی |
دیکھتا آ کے جو حائل نہ حیا ہو جاتی |
دیکھ لیتا جو عدو ، چہرہ ترا ، غور کے ساتھ |
روشنی چہرے کی ، آنکھوں کی ضیا ہو جاتی |
بیٹیوں ، بہنوں، کی عزّت ہوئی قائم تجھ سے |
سر پہ ان کے تھی رِدا تیری دُعا ہو جاتی |
بھیجتا ہے جو خدا ساتھ فرشتوں کے درود |
تُو جہاں ہوتا معطّر تھی فضا ہو جاتی |
ایسا کرتا تھا اثر ، زیست کا انداز ترا |
دل سے دنیا کی محبّت تھی ، جدا ہو جاتی |
ایک خواہش ہو جو پوری تو ہے انجام بخیر |
میری ہر سانس میں بس تجھ سے وفا ہو جاتی |
معلومات