جاں ترے کوچہ میں آ کر یہ فنا ہو جاتی
مجھ کو گر قوّتِ پرواز عطا ہو جاتی
بارہا سوچا یہ دیکھوں ترا روضہ میں بھی
دیکھتا آ کے جو حائل نہ حیا ہو جاتی
دیکھ لیتا جو عدو ، چہرہ ترا ، غور کے ساتھ
روشنی چہرے کی ، آنکھوں کی ضیا ہو جاتی
بیٹیوں ، بہنوں، کی عزّت ہوئی قائم تجھ سے
سر پہ ان کے تھی رِدا تیری دُعا ہو جاتی
بھیجتا ہے جو خدا ساتھ فرشتوں کے درود
تُو جہاں ہوتا معطّر تھی فضا ہو جاتی
ایسا کرتا تھا اثر ، زیست کا انداز ترا
دل سے دنیا کی محبّت تھی ، جدا ہو جاتی
ایک خواہش ہو جو پوری تو ہے انجام بخیر
میری ہر سانس میں بس تجھ سے وفا ہو جاتی

0
21