بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی |
تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی |
حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری |
گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی |
مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا |
کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی |
تُمہاری یاد کی خُوشبُو کے دائروں میں رہا |
اگرچہ زرد رہی، پر بہار جیسی تھی |
تُمہارے ہِجر کے موسم میں، کیا کہُوں حالت |
کبھی اُجاڑ، کبھی تو سِنگھار جیسی تھی |
رہی ہے گِرد مِرے حلقہ اپنا تنگ کِیئے |
حیات جیسے کِسی اِک حِصار جیسی تھی |
وہ رات جِس سے میں شب بھر لِپٹ کے روتا رہا |
رشِیدؔ شب تھی مگر غمگُسار جیسی تھی |
رشِید حسرتؔ |
معلومات