کب یہ بدلے گی شب سویروں میں
بیٹھے کب تک رہیں اندھیروں میں
شمع بیکار تو نہیں جلتی
سارے شامل ہوں اس کے پھیروں میں
بن کے پروانہ جاں لُٹائیں جب
ہوں گے شامل تبھی دلیروں میں
ہو گئی شام ہے کہاں منزل
ڈھونڈتے تھے جسے سویروں میں
کرنے آئے طواف کعبہ کا
پڑ گئے اس جہاں کے پھیروں میں
ہم کو بزدل گماں کِیا کس نے
تھا ہمارا شمار شیروں میں
گھر سے نکلے نہیں تھے جو اب تک
جا کے بیٹھے ہیں کیسے ڈیروں میں
اُن کو شیطان گر نہ بہکا تا
وہ بھی کہلائے جاتے تیروں میں
طارق اُس کی نظر پڑی جب سے
ہم ہوئے سیب جیسے بیروں میں

0
10