غموں کو سینہ میں رکھا سجا کے
کِیا برتاؤ بھی تھا مسکرا کے
حسیں چہرہ ادائیں شوخ و چنچل
"وہ اوجھل ہو گیا جلوہ دکھا کے"
گوارہ کرب سارے عشق میں تھے
سہے ظلم و ستم وعدے نبھا کے
رواں ہے کارواں منزل کی جانب
قدم کوشاں ہیں خوابوں کو سما کے
تصور میں ہو تم دھڑکن میں ہو تم
بچھڑ بھی جائیں تو الفت بسا کے
ملن کے لمحے فرحت بخش رہتے
مہک زلفوں کی سانسوں میں رچا کے
بندھے رشتوں کے بندھن میں ہیں ناصؔر
دلوں میں پیار کے جزبے جگا کے

0
99