خدا کو کھو دیا ہے اس کا عکس ڈھونڈتا ہے
بگولہ خاک کا کیا کر کے رقص ڈھونڈتا ہے
اگرچہ دیر ہوئی اس سے ملا قا ت ہوئے
اسی کے ہاتھ کا وہ اب بھی لَمْس ڈھونڈتا ہے
ملی ہے جس کو سخاوت کی خوبی ورثے میں
کسی غریب کو وہ کھا کے ترْس ڈھونڈتا ہے
جسے گلہ ہے ہواؤں کے تیز چلنے کا
ہوا کا جھونکا کوئی وقتِ حبْس ڈھونڈتا ہے
چلی ہے رسم نئی میرے شہر میں الٹی
جو بے وفا ہے محبّت کا درس ڈھونڈتا ہے
حصولِ علم کی خاطر جو گھر سے آیا تھا
وہ نو جوان یہاں گانجہ چرس ڈھونڈتا ہے
اسے ہے ڈھونڈنا ان میں سے ایک رہبر کو
امین ہو کوئی ایسا وہ شخص ڈھونڈتا ہے
ہے اس زمانے میں جو دور نفسا نفسی کا
یہ طارق اب کوئی بندہ بے نفْس ڈھونڈتا ہے

0
8