جو تری راہ تکتے رہتے ہیں
بس وہی راہ رو بھٹکتے ہیں
سچ کی منزل کا ایک رستہ ہے
جھوٹ کے بیشمار رستے ہیں
کیسے پاجائیں گے کوئی منزل
روز ہم راستے بدلتے ہیں
سائے کب مستقل مزاجی ہیں
دھوپ کے ساتھ گھٹتے بڑھتے ہیں
ابر امڈے ہوئے ہیں آنکھوں میں
دیکھئے کس گھڑی برستے ہیں
ہم نہ کانٹا نہ گل نہ سنگ تو پھر
کیوں ہر اک آنکھ میں کھٹکتے ہیں
چھٹ بھی سکتا ہے میل آنکھوں کا
اشک دل سے کہیں نکلتے ہیں
وہ ہیں شیدا حبیب راتوں کے
تارے دن میں کہاں چمکتے ہیں

0
42