میں خود میں اتر کے تھک گیا ہوں
جاں کا خلا بھر کے تھک گیا ہوں
وہ جو تھی حَویلی دل کی اس کو
برباد میں کر کے تھک گیا ہوں
خواہش تھی کہ کوئی راہ نکلے
ہر موڑ پہ مر کے تھک گیا ہوں
یہ خواب عذابِ جاں ہی ٹھہرے
میں خواب میں ڈر کے تھک گیا ہوں
سب لوگ بہت خوش ہیں یہاں پر
میں ہنس کے مکر کے تھک گیا ہوں
جو دل تھا کبھی وہ راکھ ٹھہرا
میں آگ میں بھر کے تھک گیا ہوں
یوں ضبط کا دامن تھامے رکھا
ہر آنکھ کو تر کے تھک گیا ہوں
اب ہجر کی سرحد پہ کھڑا ہوں
میں وصل میں مر کے تھک گیا ہوں
جو ذات کا صحرا تھا وہی ہے
میں خود کو سنور کے تھک گیا ہوں
اب کس سے محبت کی طلب ہو
میں نام ہی کر کے تھک گیا ہوں
یوں شوق کا صحرا جل رہا ہے
میں پیاس کو بھر کے تھک گیا ہوں
یہ دنیا بھی کوئی خواب نکلی
میں جاگ کے مر کے ٹھک گیا ہوں

0
37