بھروسہ کیا ہو انساں کو زندگانی کا
سیانے کہتے ہیں یہ بلبلہ ہے پانی کا
مہکتی شام ہو تم اور چائے کا کپ ہو
بہت ہی لطف ہے پھر شام اس سہانی کا
کرو نہ ضائع انمول ہیں یہ گھڑیاں کہ پھر
پلٹ کے آتا نہیں وقت یہ جوانی کا
نئے زمانے کی اقدار بھی گوارہ ہیں
پہ دل ہے سادہ عادی ہے یہ پرانی کا
پہ دل کا کیا ہو عادی ہے یہ پرانی کا
ترس رہا ہے زمانہ حیاتِ نو کے لیے
روحانی آبِ بقا، رحمتوں کے پانی کا
بروزِ حشر خدا کے حضور ہوں گے جب
نہ ہو گا ڈر کبھی پھر حکمِ "لَن ترانی " کا
کہ گنجلک ہے کہانی بہت ہی جیون کی
نہ اس کی آ نی کا کچھ ڈھنگ ہے نہ جانی کا
وہ بوند بوند کو رحمت کی رب سے ترسے گا
وہ جس نے بند کیا شہؑ پے رستہ پانی کا

6