| ڈبو تو ایسا ڈبو، یاد گار بھی نہ رہے | 
| ہماری لاش سمندر میں تیرتی نہ رہے | 
| وہ آندھیاں، وہ بگولے چلا کہ اس کے بعد | 
| شبِ فراق رہے، میری جھونپڑی نہ رہے | 
| ٹٹول سینہ مرا خوب، کوئی چنگاری | 
| جلے ہوئے مرے دل کی کہیں دبی نہ رہے | 
| سنبھال رکھ مرے آنسو چھرے کے دھونے کو | 
| کہیں لکیر مرے خون کی جمی نہ رہے | 
| جنابِ شیخ کو آیا نہ چین، مسجد میں | 
| الٹ پلٹ رہے، جب تک شراب پی نہ رہے | 
| ابھی تو چادرِ مہتاب لے کے سوتے ہیں | 
| کسے خبر کہ سحر ہو تو چاندنی نہ رہے | 
| اٹھا کے دشت سے تنہاؔ کو بزم تک لے آئے | 
| سدا ملال رہے گا ہم اجنبی نہ رہے | 
 
    
معلومات