جس دور میں عزّت دولت کے، پلڑے میں تولی جاتی ہو
جس دور میں سستی شہرت کو، ہر ایک نظرللچاتی ہو
جس دور میں سر سے حیا کی رِدا، فیشن کی ہوا سَرکاتی ہو
جس دور میں بزمِ عَیش و طَرَب، تسکین کے ساز بجاتی ہو
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو؟
اولاد کی تلخ کلامی سے، ماں باپ جہاں گھبراتے ہوں
حق بات بھی خوف سے ان کے وہ، جب کہنے سے رُک جاتے ہوں
وہ کرب میں ڈوبی راتوں میں، اَشکوں کے سَیل بہاتے ہوں
جب دل کے شِیش مَحَل میں سجے، پتھر کے رشتے ناطے ہوں
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو؟
جب دین کو چھوڑ کے حُسن کو ہی، لڑکی میں دکھایا جاتا ہو
اور ہاتھ میں دے کے دولھا کے، پھر ناچ نچایا جاتا ہو
جذبات کی جلتی بھٹی میں، پھر خوب جلایا جاتا ہو
پھر قیدِ نِکاح سے رہائی کا، اک داغ لگایا جاتا ہو
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو؟
جس دور میں سب کی سانسیں بھی، ہر لمحہ فون میں اٹکی ہُوں
جس دور میں نبض کی چالیں بھی، اس فون کی ٹون پہ چلتی ہُوں
جس دور کے بچوں کی آنکھیں، کُھلتے ہی فون سے چِپکی ہُوں
جس دور کی مائیں فون سے ہی، ممتا کی لہریں لیتی ہُوں
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو؟
شیطان کے حکم پہ چلتے ہیں، قرآن بُھلائے بیٹھے ہیں
ہم قبر کو اپنی بھول کے بس، دنیا کو سجائے بیٹھے ہیں
محشر کا ہوش رُبا منظر، ذہنوں سے مٹائے بیٹھے ہیں
ایسے بھی ہیں کُچھ مومن جو، ایمان گنوائے بیٹھے ہیں
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو؟
جب واعِظ کی تقریر ہمیں، تلقین سے ہی بیزار کرے
جب سر کش نفس گُناہوں پر، ہر ایک گھڑی اِصرار کرے
جب فاسِق زُعمِ باطِل میں، عَبدِیّت کا پرچار کرے
جب فاجر نیک غُلاموں کے، تقویٰ کا ہی انکار کرے
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو؟
جب دل ہو مرکَزِ رحمَتِ رب، اور تن کو سجایا جاتا ہو
جب روح کے بدلے نفس کو ہی، ہر جام پلایا جاتا ہو
جب چھوڑ کے مُلہِم کی دعوت، ہمزاد منایا جاتا ہو
جب چھوڑ کے زیرکؔ رب کی رِضا، خلقت کو نبھایا جاتا ہو
اس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو؟

13