چہرہ ہے خوب، زلفِ گرہ گیر اخیر ہے
وہ تیرے ساتھ لی ہوئی تصویر اخیر ہے
گھائل ہوۓ ہیں کتنے ہنر مندِ تیغ بھی
تیری بھووں کی خیر، یہ شمشیر اخیر ہے
بیمارِ غم پہ ہے یہ عنایت بہت مفید
یعنی کہ عارض و لبِ اِکسیر اخیر ہے
دل میں بَجُز خرابئِ شوق و جنوں ہے کیا
کیا کہنے ہیں کہ نامۂِ تقدیر اخیر ہے
بے آبرو ہوۓ روشِ آرزو میں ہم
طرزِ جفا میں وہ بتِ بے پیر اخیر ہے
تاریکئِ فراق سے دل ڈر کے رہ گیا
خوف آتا ہے کہ نالۂِ شب گیر اخیر ہے
بس اک گمان میں ہے امیدِ وفا ہمیں
اس نقشۂِ گمان کی تعمیر اخیر ہے
ان کے کہے پہ قتل کرے گا ہمیں رقیب
اللہ رے جوتشی تری تعبیر اخیر ہے
ہم وجہِ شغلِ طعنہ زنی ہوۓ عشق میں
یہ ذلت و تباہی و تحقیر اخیر ہے
کب کا گزر گیا ہے وہ دل کا زمانہ پر
اس عشقِ نامراد کی تاثیر اخیر ہے
چہرہ ہے زرد اور رگیں پھولتی ہیں زیبؔ
پھنداۓ آرزوۓ گلو گیر اخیر ہے

0
157