وہ کہکشاں وہ شہاب جیسا
لگے ہے وہ کیوں عذاب جیسا
عجب تعلق ہے میرا اس سے
حقیقتوں میں سراب جیسا
رفاقتوں سے ہے وہ گریزاں
تھا جس کو میں بھی صحاب جیسا
یہ ہجر میں اب ہوئی ہے حالت
ہوا ہے دل جو یُباب جیسا
فراق کی شب بری تھی حالت
جلا یہ دل بھی کباب جیسا
اسے میں بھولوں کہاں یہ ممکن
وہ پیارا پیارا خوشاب جیسا
نگاہوں میں ہے بلا کی مستی
ہے چہرہ اس کا گلاب جیسا
تمہیں بتاؤں میں اس کا لہجہ
ہے میٹھا میٹھا خُشاب جیسا
جلال کیسے نہ پیار کرتا
وہ عشق کے تھا نصاب جیسا

0
10