اس کو کیسے نہ مسیحائی میں يكتائی ملے |
جس کے چھونے سے فقط، پھولوں کو رعنائی ملے |
ہم یہاں دل کو دوا ڈھونڈنے آئے تھے مگر |
لوگ جتنے بھی ملے ہم کو تماشائی ملے |
تُو ملا بھی تو ہمیں ترکِ محبت کے بعد |
جیسے مر کر کسی شاعر کو پزیرائی ملے |
کیا کروں عزت و شہرت کا مَیں جب تُو ہی نہیں |
تُو ملے ساتھ بھلے ذلت و رسوائی ملے |
اُنؐ کے در پر ہیں کھڑے ہم بھی ندامت لے کر |
دیکھیے کب دلِ مضطر کو شکیبائی ملے |
چارہ سازوں نے بھی خنجر ہی اٹھا رکھے ہیں |
اب کسے عیسیٰ کریں کس سے مسیحائی ملے |
گھر کو ویرانہ کِیا تو کبھی ویرانے کو گھر |
کیا کریں اور جنہیں ورثے میں تنہائی ملے |
آستینوں میں جو جھانکا تو ہوئی حیرانی |
نہ وہاں یار ملے اور نہ شناسائی ملے |
آ کہ بھٹكی ہوئی روحوں کو قرار آ جاۓ |
آ کہ دو بکھرے ہوئے جسموں کو یکجائی ملے |
کچھ کو ملتا ہے صِِلہ کچھ کو نہیں بھی ملتا |
یہ ضروری نہیں ہر آنکھ کو بینائی ملے |
ہے بھلے وقت کی اک وہ بھی نشانی دائمؔؔ |
بے مروت ہی سہی پھر بھی وہ ہرجائی ملے |
معلومات