بس خدا پر  یقیں رکھتا ہوں
میں  دُعا پر  یقیں رکھتا ہوں
موت  کا بھی  مجھے ڈر نہیں
میں  بقا  پر  یقیں رکھتا ہوں
لادوا  کوئی   یاں دکھ  نہیں
میں شِفا پر یقیں رکھتا  ہوں
مجھ کو  نفرت سے نفرت ہے اب
بس وفا پر یقیں رکھتا ہوں
آنکھ  نیچی  رکھی  ہے  سدا
میں حیا پر یقیں رکھتا ہوں
اِنتہا  کا    نہیں   ڈر   مجھے
اِبتدا   پر   یقیں  رکھتا  ہوں
مرنا    منظُور  جھکنا   نہیں
میں  انا پر یقیں رکھتا  ہوں
ایک دِن برسے گی دیکھنا
اِس گھٹا پر یقیں رکھتا ہوں

1
163
کیا بات ہے

0