شہرِ مرشد کی ہے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
ابر چھایا ہوا ہے سَماں دلرُبا
کالی بدلی میں اڑتے ہوئے طائِران
شکر میں رب کے ہیں آج نغمہ سَرا
بوندا باندی کبھی تیز بارش کبھی
اک عجب اس میں ہے بھیگنے کا مزہ
سبزہ ہی سبزہ ہے پھول ہر سُو کِھلے
دل کا گلشن مرا دیکھ کر کھِل اُٹھا
سب کے چہروں پہ ہے مسکراہٹ سجی
رُت یہ ساون کی ہے دل مچل سا گیا
کس قدر موڈ اپنا ہوا خوشگوار
برکھا رحمت کی ہے یا غموں کی دوا؟
جو بہاریں مدینے کی ہیں دوستو
قلب زیرکؔ کا ہر دم تو اُن پر فدا

0
41