حسن افکار تک نہیں پہنچا
عشق اظہار تک نہیں پہنچا
جانتا ہی نہیں مسیحا کو
جو کہے دار تک نہیں پہنچا
ساری دنیا اسے کہے مظلوم
پر یہ سرکار تک نہیں پہنچا
واقعہ سب کو ہو گیا معلوم
وہ جو اخبار تک نہیں پہنچا
جانتے ہیں نتیجہ پہلے ہی
ووٹ حقدار تک نہیں پہنچا
اُس نے انکار ہی کیا ہوتا
گر وہ اقرار تک نہیں پہنچا
مُڑ گیا دوسروں کے کہنے پر
تیرے کردار تک نہیں پہنچا
دیکھتا وہ تری حیا کا رنگ
تیرے رُخسار تک نہیں پہنچا
اُس نے یہ سوچ کر دیا دُکھ اور
دل یہ آزار تک نہیں پہنچا
جس نے حُسنِ ازل کو دیکھا ہے
اُس کے انکار تک نہیں پہنچا
طارق اُس کے قریب کیا ہو گا
تُو جو معیار تک نہیں پہنچا

0
52