ہم کو مٹا سکے یہاں کس میں مجال ہے |
رہنے دو بے تکا سا فقط اک سوال ہے |
خوشیاں ملی ہیں آج تو کل کو ملال ہے |
اِس رَہ گزارِ زِیست میں ہجر و وصال ہے |
دانا کی عقل صحبتِ ساقی نے چھین لی |
کہتے ہیں ”مَے بھی اب تو یہاں پر حلال ہے“ |
مٹ جائے دل ترا یہاں تجھ کو الم نہیں |
قوموں کے مٹنے کا مگر اب تو سوال ہے |
کہنے لگے ”جواب نہ دیں گے سوال کا“ |
یہ ہے نہیں جواب مرا اور سوال ہے |
کہنے لگے ”سوال ہی مغلوط ہے ترا“ |
دیکھو سوال اپنی جگہ پر سوال ہے |
پیروں تلے یوں کون روندے اسے بھلا |
تیری نگاہِ ناز کا جو پائمال ہے |
ہم کو مٹانے کی یہاں سازش نہ کر خَصم |
جس کو رکھے خدا کہاں اس کو زوال ہے |
حسانؔ اب قلم تو چلانا سنبھال کر |
تیری قلم جو بار ہا کرتی وبال ہے |
معلومات