زمانہ مجھ سے کہتا ہے بدی کے آگے جھک جانا |
سمندر ہوں مری فطرت میں ہے ساحل سے ٹکرانا |
مرا سر کٹ تو سکتا ہے مگر یہ جھک نہیں سکتا |
محمد کا سپاہی ہوں نہیں مرنے سے گھبرانا |
مجھے طاغوت اور دجال کے لشکر سے کیا ڈر ہو |
میں غازی ہوں مجھے جنگوں کی اگلی صف میں ہی پانا |
مرا کلمہ شہادت ہے مرا پیغام الفت ہے |
مگر ابلیس کی فطرت ازل سے حق کو جھٹلانا |
مری پرواز نیچی پر مرے اقدار اونچے ہیں |
جو ہے کامل یقیں پیدا تو کیا دشمن سے ڈر جانا |
مری خوشبو بھی ہر اک راستہ، ہر سمت پھیلے گی |
میں وہ گل ہوں بہاروں کا نہیں سیکھا ہے مرجھانا |
اگر تاریکیءِ ظلمت سے سورج ہو چکا گرہن |
نئے شمس و قمر کو اب لہو سے اپنے دہکانا |
چراغِ حسرتوں سے اک نئی دنیا نہیں بنتی |
نئی دنیا بنانی ہو تو خونِ جاں جلا جانا |
معلومات