زمانہ مجھ سے کہتا ہے بدی کے آگے جھک جانا
سمندر ہوں مری فطرت میں ہے ساحل سے ٹکرانا
مرا سر کٹ تو سکتا ہے مگر یہ جھک نہیں سکتا
محمد کا سپاہی ہوں نہیں مرنے سے گھبرانا
مجھے طاغوت اور دجال کے لشکر سے کیا ڈر ہو
میں غازی ہوں مجھے جنگوں کی اگلی صف میں ہی پانا
مرا کلمہ شہادت ہے مرا پیغام الفت ہے
مگر ابلیس کی فطرت ازل سے حق کو جھٹلانا
مری پرواز نیچی پر مرے اقدار اونچے ہیں
جو ہے کامل یقیں پیدا تو کیا دشمن سے ڈر جانا
مری خوشبو بھی ہر اک راستہ، ہر سمت پھیلے گی
میں وہ گل ہوں بہاروں کا نہیں سیکھا ہے مرجھانا
اگر تاریکیءِ ظلمت سے سورج ہو چکا گرہن
نئے شمس و قمر کو اب لہو سے اپنے دہکانا
چراغِ حسرتوں سے اک نئی دنیا نہیں بنتی
نئی دنیا بنانی ہو تو خونِ جاں جلا جانا

0
1
62
احسن صاحب میں آپ کا سب کلام تو نہیں دیکھ سکتا مگر آپ کو ایک عمومی بات بتا سکتا ہوں آپ کے کلام کے بارے میں - آپ کا ایک مسئلہ زبان کا صھیح استعمال ہے - چاہے وہ مصرعوں کا تعلق ہو الفاظ کی نشست ہو یا گرامر ہو - مثلاً
مرا سر کٹ تو سکتا ہے مگر یہ جھک نہیں سکتا
محمد کا سپاہی ہوں نہیں مرنے سے گھبرانا
== دونوں مصرعوں کی گرامر الگ الگ ہے - آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے نثر میں لکھ کے دیکھیں آپ کو پتا چلا جائے گا اس بات کا
میں محمدﷺ کا سپاہی ہوں لہذٰا میرا سر کٹ تو سکتا ہے مگر یہ جھک نہیں سکتا اس لیئے میں مرنے سے نہیں گھبراتا -
دیکھا آپ نے آپ کے جملے کی گرامر کا تقاضہ ہے کہ آخر میں گھبراتا آئے - آپ نے لکھنا ہے گھبرانا - آپ نے گھبرانا اس لیئے لکھا کہ یہ آپ کا قافیہ ہے مگر قافیہ لانے کے لیئے گرام غلط نہیں کر سکتے - اگر آپ کو آخر میں گھبرانا لانا ہے تو پہلے مصرعے کا مضمون کچھ اس طرح کی ہونی چاہییے کہ
اے محمدﷺ کے سپاہیوں چاہے سر کٹ جائے مگر جھکے نا - کیونکہ آپ کے سپاہی کو مرنے سے گھبرانا نہیں چاہیئے - اس طرح خیال کو نظم کرنا ہوگا آپ کو -

مجھے طاغوت اور دجال کے لشکر سے کیا ڈر ہو
میں غازی ہوں مجھے جنگوں کی اگلی صف میں ہی پانا
== یہاں بھی وہی گرامر غلط ہے

مرا کلمہ شہادت ہے مرا پیغام الفت ہے
مگر ابلیس کی فطرت ازل سے حق کو جھٹلانا
یہاں آپ دونوں مصرعوں میں کوئی تعلق نہیں بنا سکے - آپ کا کلمہ اگر شہادت ہے تو اس کا ابلیس کی فطرت سے کیا تعلق ہوا؟ یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں ایسا شعر دو لخت کہلاتا ہے -

بس اگر آپ سمجھنا چاہیں تو میرے اتنے لکھے کو بہت سمجھیں -