درس الفت کے جو ڈھونڈے تو فسانے سے ملے
لذتِ عشق مگر غم کو اٹھانے سے ملے
راہیں پُر خار ہیں، دامن کو بچائیں کیسے
"داغ دنیا نے دیے، زخم زمانے سے ملے"
جزبوں میں جوش ہے، پر جوڑ نہیں فکروں میں
سوچ تو ہے نئی، انداز پرانے سے ملے
رشتہ مضبوط بھی کب بگڑے یہاں کیا پتہ ہے
روح کو تازگی روٹھے کو منانے سے ملے
کامرانی کبھی ناصؔر نہیں پائیں گے مفت
رتبہ بھی اعلیٰ یہاں ہستی مٹانے سے ملے

0
57