| دوست دشمن یہاں سب ایک برابر نکلے |
| چاہنے والے سبھی تیرے سراسر نکلے |
| روشنی چاند کی آئی ہے میسّر جس کو |
| کون کہتا ہے کہ تاریک مقدّر نکلے |
| وہ جو گہنائے گا بتلایا گیا تھا پہلے |
| دیکھنے چاند بہت لوگ تھے چھت پر نکلے |
| طعنہ دیتے تھے اسے ختم یہ ہو جائے گا |
| اس کے دشمن تھے وہی بعد میں ابتر نکلے |
| شبِ تاریک میں رستہ کوئی دیکھے کیسے |
| آپ کہتے ہو نہ اب ماہ نہ اختر نکلے |
| مل ہی جاتی ہے اسے منزلِ مقصود اگر |
| ڈھونڈنے راستہ گھر سے کوئی باہر نکلے |
| کیسے کہہ دوں اسے مل کے نہیں مایوسی ہوئی |
| جب خیال اس کے مری سوچ سے کم تر نکلے |
| طارِق اس راہ پہ چلنے کو ہیں تیّار بہت |
| کوکھ سے چرخ کی تابندہ جو رہبر نکلے |
معلومات