جو مجھ سے مس ہو بنا دوں اسے سکندر میں |
کسی غریب کا ٹھہروں اگر مقدر میں |
میں نیند میں تھا زمانے کو نیند آئی تھی |
اسی پہ وقت بھی چونکا اٹھا جو سو کر میں |
تمنا مہر بہ لب ہے مری طلب خاموش |
صدائے لب پہ بہت کھا چکا ہوں ٹھوکر میں |
نہ جانے مجھ سے زمانے کو دشمنی کیا ہے |
نہ راہ کا کوئی کانٹا نہ کوئی پتھر میں |
تلاش مجھ کو نہ کیجے ہوا کے جھونکوں میں |
نہ کوئی مشکِ ختن ہوں نہ ہوں گلِ تر میں |
میں سنگِ لفظ اٹھالوں تو شیشہِ دل ہے |
یہی تو سوچ کے چپ ہو گیا ہوں اکثر میں |
مرا وجود لگا ہے حبیب کب میرا |
بدن کے خول سے نکلا ہوں جب بھی باہر میں |
معلومات