کیوں گماں ہے تجھے اس تیز ہوا سے کچھ ہو
رکھ یقیں پختہ نہ سرزد ما سوا سے کچھ ہو
کارگر کوئی نہ تدبیر ہو سکتی ہے اب
"دل میں وہ درد ہے جس کا نہ دوا سے کچھ ہو"
ابتری سے ہو چلا حال برا ہے اتنا
کچھ نہ رہبر سے بنے یا رہ نما سے کچھ ہو
ہوش جب کھو چکے ہوں ہارنے سے بازی گر
استقامت رکھیں سارے تو وفا سے کچھ ہو
ہم نے بس اک ہے قدم آگے بڑھانا ناصؔر
تھوڑی حرکت کریں پھر اس کی عطا سے کچھ ہو

0
66