وہ شخص جان سے پیارا تمہیں ہزار لگے
کرا کے آیا کہیں سے ہے وہ سنگھار لگے
ہمیشہ وقت کا دھارا تو تیز چلتا ہے
اسے غرض نہیں ڈوبے کوئی یا پار لگے
سمجھ میں آیا ہمیں واپسی کا ہے یہ سفر
گلوں بھری بھی اگر راہ خار دار لگے
اثر ہوا ہے زمانے کی جھوٹی باتوں کا
کبھی کبھی تری ناراضگی بھی پیار لگے
یہ فصلِ گل کا ہے موسم کہ موتیا اترا
کہ دھند سردی میں اتری مجھے غبار لگے
زکام نزلے کا موسم ہے شہر میں پھیلا
ذرا سی کھاسی ہی تھی تیز اب بخار لگے
مجھے ستار کی آواز سے لگاؤ تھا
سبھی کے ہاتھ میں آیا مگر گٹار لگے
بڑی خوشی کی خبر ہے بتائیں یہ اس کو
جو کہہ رہی ہے کہ اچھا اسے اچار لگے
جو لے کے آیا ہے سب ڈگریاں ہی باہر سے
سیاسی رہنما مجھ کو تو وہ گنوار لگے
بھروسہ کیا کریں طارق کہ پائیں گے منزل
وہی ہے ریل وہ انجن ہی بار بار لگے

0
10