تصور میں وہ رہتی ہے بناتی ہے وہ تصویریں
عجب ہے یاد تیری بھی جو پہناتی ہے زنجیریں
قلم جب بھی اٹھاتا ہوں کہیں کچھ بھی جو لکھنا ہو
تجھے پکڑے ہی رہتی ہیں نکلتی ہیں جو تحریریں
مجھے لذت سی ملتی ہے تری اس قید میں جاناں
مجھے آزاد ہونے کی نہیں کرنی ہیں تدبیریں
کہ تیرے ساتھ جو دیکھے تھے ہم نے خواب جیون کے
سمیٹوں گا کبھی تو میں انھی سپنوں کی تعبیریں
چلو کچھ فیصلہ کر لیں کہ بانٹیں کس طرح سے ہم
محبت کی بنائی تھیں جو مل کے ساتھ جاگیریں
ہے کیسا کھیل یہ تیری ہمایوں بگڑی قسمت کا
کہ حصے میں ترے آئی ہیں ایسی کیوں یہ تحقیریں
ہمایوں

0
39