رونے کے جتنے مجھ میں تھے اسباب لے گیا
وہ شخص میری دولتِ نایاب لے گیا
کچھ دیر دیکھتا رہا آنکھوں میں وہ مری
پھر مسکرا کے دل کے سبھی خواب لے گیا
اک ہی تھا میرے پاس بھی دل اور اسے بھی وہ
جانانِ دل، وہ صورتِ مہتاب لے گیا
میں کب تھا آیا اپنے سے اس مہرباں کے گھر
ہر مرتبہ مجھے دلِ بےتاب لے گیا
کچھ بھی خبر نہیں تجھے اے رہبرِ وطن
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
لب پر سلام چہرے پہ مسکاں نہیں رہی
مصروفیت کا دور سب آداب لے گیا
جس کے بھی ہاتھ آیا جو اس کو وہ لے گیا
باقی تھا بس امام وہ محراب لے گیا

0
62