رونے کے جتنے مجھ میں تھے اسباب لے گیا |
وہ شخص میری دولتِ نایاب لے گیا |
کچھ دیر دیکھتا رہا آنکھوں میں وہ مری |
پھر مسکرا کے دل کے سبھی خواب لے گیا |
اک ہی تھا میرے پاس بھی دل اور اسے بھی وہ |
جانانِ دل، وہ صورتِ مہتاب لے گیا |
میں کب تھا آیا اپنے سے اس مہرباں کے گھر |
ہر مرتبہ مجھے دلِ بےتاب لے گیا |
کچھ بھی خبر نہیں تجھے اے رہبرِ وطن |
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا |
لب پر سلام چہرے پہ مسکاں نہیں رہی |
مصروفیت کا دور سب آداب لے گیا |
جس کے بھی ہاتھ آیا جو اس کو وہ لے گیا |
باقی تھا بس امام وہ محراب لے گیا |
معلومات