الوداع اے فیضِ قرآں جا رہے ہیں چھوڑ کر
علم کے اس گلستاں سے اپنے رُخ کو موڑ کر
پیار سے مل کر جو ہم نے رہگزاری کی یہاں
بھول پائیں گے نہ اس کو ہے سبھی کا یہ بیاں
آ رہی ہے ہجر کی اب چاروں اوروں سے صدا
چشم نم ہیں ہم چمن سے ہو رہے ہیں اب جدا
یاد آئیں گی سبھی استاذ کی یہ الفتیں
وہ محبت کی نگاہیں وہ سبھی کی شفقتیں
ہاں ہمیں درسِ جسیرالدیں بہت محبوب تھا
حضرتِ ممتاز کا درسِ بخاری خوب تھا
جام مسلم سے نصیرالد یں کئے سیراب خوب
صحبت راسخ میں رہ کر ہم ہوۓ شاداب خوب
ہم پہ انعام و عزیزی کے ہے احساں بالیقیں
ترمذی کے فیض سے ہم کو کئے روشن جبیں
کیسے بھولیں ہم ا بوداؤد کو تنویر کو
حضرتِ مرغوب کو اور ان کی ہر تقریر کو
خوب تر سمجھاۓ ابنِ ماجہ کا ایک ایک باب
گلستانِ شاہ عالم سے ہوۓ ہم فیضیاب
جوہرِ افہام تھا واعظ میں بیحد خوشنما
یاد آۓ گی بہت درسِ طحاوی کی فضا
حضرتِ اقبال میں تھی علم و حکمت کی جھلک
خوب پھیلاۓ یہاں درسِ مؤطا کی مہک
ہاں رہیں گے حضرتِ افسر کے تابعدار ہم
ان کے ہی علمِ نسائی سے ہوۓ سرشار ہم
ہے دعا یونسؔ کی اس گلشن کو اور رفعت ملے
اور اس کے بانیوں کو اے خدا جنت ملے

0
5