اشک غم رفع ہیں چشمِ نم سے
زندگی کھل اٹھی تیرے دم سے
میں تھا ویرانئِ رنگِ بد میں
مہکی خلوت تری زلفِ خم سے
گفتگو کوئی ہماری دیکھے
میں فقط تم سے ہوں تم ہو ہم سے
پسِ منظر تھا کوئی عالمِ کیف
اٹھ گیا پردہ اسی عالم سے
کاسۂِ ذات پہ ہے سایہ ترا
آخرش ہم نکل آۓ غم سے
وہ ہے دریاۓ دوامِ فرحت
ہوئی ترسیل مری اس یم سے
حضرتِ زیبؔ ہیں اتراۓ ہوۓ
کچھ تو سرزد ہوا اس آدم سے

0
46