نوکِ سناں پہ سورہ جو پڑھتا سفر میں ہے
باطل ہے کون سب کو بتاتا سفر میں ہے
بیٹی علی کی ثانئ زہرا سفر میں ہے
بالوں سے کرتی چہرے کا پردہ سفر میں ہے
زخموں سے چور چور ہے سجادِ ناتواں
سارے بدن سے خون ٹپکتا سفر میں ہے
نیزوں پہ سر شہیدوں کے اہلِ حرمؑ اسیر
کرب و بلا کے پیاسوں کا کنبہ سفر میں ہے
گرتے ہیں بچے پشت سے اونٹوں کی جا بجا
ہاتھوں پہ لیتی ہیں انھیں زہرا سفر میں ہے
اہلِ حرمؑ یہ بولے سرِ شہؑ کو دیکھ کے
بے جرم ظلم نے تجھے مارا سفر میں ہے
کہتی ہے رو کے ماں سے کہ دکھتا گلا بھی ہے
رسی سے باندھ کے جو چلایا سفر میں ہے
بازارِ شام میں کھڑی زہراؑ کی لاڈلی
بالوں سے رخ کا کرتی ہے پردہ سفر میں ہے
صائب وہ کیسے لکھے جو مارا گیا تھا تیر
ننھا سا سر وہ نیزے پہ دیکھا سفر میں ہے۔

109