مرا شباب ڈھل گیا
مرا گلاب جل گیا
زمانہ ہی بدل گیا
بدل گیا، بدل گیا
وہ میرا آشنا تھا جو
وہ میرا مبتلا تھا جو
فریفتہ تھا حسن پر
مرے وجود کا سفر
بہت تھکا گیا اسے
کوئی بتا گیا اسے
میں پہلی سی نہیں رہی
جو پہلے تھی نہیں رہی
وہ سیم جسم، ماہ رُو
وہ صندلیں بدن کی بُو
زیاں و سود کچھ نہیں
مرا وجود کچھ نہیں
یقین کی کمی نہ ہو
رفیق اجنبی نہ ہو
خدا کرے کبھی نہ ہو
کبھی نہ ہو، کبھی نہ ہو
مری جبیں کی روشنی
اداسیوں میں کھو گئی
مری ہنسی، مری پکار
مرے وجود کی بہار
ادا و ناز، شوخ رنگ
لہو لہو ہے انگ انگ
میں روؤں رات رات بھر
بس ایک بات رات بھر
یہ میرے ساتھ کیا ہوا
وہ مجھ سے کیوں جدا ہوا
مرا قصور تو بتا
مرا نصیب، اے خدا!
مرا وجود عارضہ
کہاں سے لاؤں حوصلہ
میں کس سے جا کروں گلہ
کروں گلہ، کروں گلہ
بکھر گئی ہے زندگی
کہیں نہیں رہی خوشی
میں موت مانگتی پھروں
میں مبتلائے عشق ہوں
جدائی ہے مرا نصیب
جواب دے چکے طبیب
سزائے زندگی مگر
نہیں ہے اتنی مختصر
کہ چھوٹ جائے جاں مری
کہ بند ہو زباں مری
میں اپنی قبر کھود لوں
میں اپنی موت گود لوں
دہکتے صبح و شام میں
بھرا ہے زہر جام میں
مزہ نہیں کلام میں
کلام میں، کلام میں
ملال پالتی ہوں میں
دھمال ڈالتی ہوں میں
میں دسترس میں کب رہی
میں اپنے بس میں کب رہی
خلافِ آرزو ہوا
جگہ جگہ رفو ہوا
رہِ جنون میں قدم
ملا نہ کچھ سوائے غم
سکونِ جان لُٹ گیا
مرا جہان لُٹ گیا
ہے تنہاؔ ”زخمِ تیرہ روز“
بیانِ داستانِ سوز

0
81