| جب پتّھروں کے شہر میں ہم نے اذان دی | 
| اُس روز مورتوں کو خُدا نے زبان دی | 
| پھر کیا بچے گا تیری مسیحائی کا بھرَم | 
| جب تیرے در پہ مَیں نے کِسی روز جان دی | 
| مُجھ کو مِلے وہ تیر، شِکَستہ تھے جِن کے پھل | 
| پھر اِس پہ مُستَزاد کہ ٹوٹی کمان دی | 
| مِشعَل بکَف مَیں سلطَنَتِ شب میں کیا گیا!!! | 
| میری دہائی رات نے سات آسمان دی | 
| لے آج میرے خِرقۂ صد چاک کا خراج | 
| جا اے امیرِ شہر کہ جاں تجھ کو دان دی | 
| مُجھ کو عطا ہوئے تھے نِشاں شرق و غرب کے | 
| پھر اُس کے بعد ایک لحد بے نشان دی | 
| تجھ کو طِلَسمِ ہوش رُبا سا مِلا تھا رُوپ | 
| مُجھ کو بھی اُس نے ایک الَگ داستان دی | 
| مَیں تیرا نام لے کے چلا دار کی طرف | 
| یوں مجھ کو تُو نے دولتِ ہر دو جہان دی | 
| مَیں دیکھتا رہا تھا بہت دیر اک غزَل | 
| پھر دِل نے مُجھ کو ایک غزَل ترجمان دی | 
| حمّاد ، شہرِ ظلم کی ہر رِیت ہے عجَب | 
| جو فصل جل چکی تھی، اُسی کی لگان دی | 
| ۔۔۔ | 
| حمّاد یونس | 
    
معلومات